ایک وصیت کی تعمیل

اسباق کے خلاصے

سبق“ایک وصیت کی تعمیل”اردو ادب کے بلند پایہ ادیب ، انشاء پرداز اور خاکہنگار مرزا فرحت اللہ بیگ کا مولوی وحید الدین سلیم کے بارے میں لکھا ہوا ایک شاہکارخاکہ ہے اس خاکے میں مرزا فرحت اللہ بیگ اردو کے معتبر ادیب ،صحافی انشاء پرداز مولوی وحید الدین سلیم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

” مولوی وحید الدین مرحوم کو خدابخشے کہ وہ بھی عجیب چیز تھے بلکہ ایک ایسےہیرے نگینے کی طرح تھے جو برسوں سے تراشا جاتا رہا جب تراشلیا گیا تو دنیا ئے علم و ادب میں خوب چمکے جن کی وفات سے ادب اردو اور مجلس میں جو بہت روشن چراغ تھے ان میں سے ایک چراغ بجھ سا گیا جس کے جیسا اور کوئی دوسرا مولوی وحید الدین سلیم پیدا نہیں ہوسکتا “

خاکے میں مزید آگے لکھتے ہی ” مولوی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بےپناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ متوسط قد، بھاری بدن ، بڑی سے توند، کالی سیاہ فارم رنگت ،چھوٹی چھوٹی کرنجی آنکھیں اور پر کشش شخصیت کے مالک تھے،اپنے گول سے چھرے پر سفید داڑھی کے ساتھ سفید پا جامہ کتئھی رنگ کی شیروانی اور سر پر عنابی ترقی ٹوپی اور پاؤں میں جرابوں پر انگریزی جوتا پہن کر نکلتے تو خوب نظر آتے تھے۔

میری ان سے خاص نیاز مندی تھی اور اکثر میرے لکھے ہوئے خاکوں کی تعریف کرتے رہتے تھے۔ ایک بار انہوں نے کہا کہ مولوی نذیر احمد ایک خوش نصیب استاد ہیں جن کو تم جیسا شاگرد ملا ہے۔تم نے جو اس پر خاکہ لکھا ہے اس سے وہ ادب میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگئے ہیں میں فوراً کہا

“آپ گہبراتے کیوں ہیں بسم اللہ کیجئے مرجایئے مضموں میں لکھ دوں گا” مولوی صاحب محفل و مجالس کے بڑے شوقیں تھے ان کی محفلوں میں اکثر بڑے بڑے دانا ،ادیب اور شاعر بیٹھے رہتے اور مولوی صاحب کی گفتگو ریل کی طرح سے کبھی نہ رکنے والی ہوتی ۔ ان کو میٹھا کھانے کا بہت شوق تھا مٹھائی کی ٹوکریوں میں جو کاغذ آتے ان کو صاف کرکے ان جھرجھرے کاغذوں پر غذلیں،نظمیں اور خطوط لکھا کرتے۔ مولوی صاحب کی وفات سے اردو کا ایک ستون جیسے گر گیا۔انہوں نے دنیائے ادب میں طویل خدمات سرانجام دیں ہیں ان کی بدولت ان کا نام ہمیشہ اور ہر جگہ عزت و عتبار سے لیا جائے گا۔

Leave a comment